Affiliates
بھوانی کا قدیم بلوچ قبائلی قبرستان
Page 1 of 1
بھوانی کا قدیم بلوچ قبائلی قبرستان
شبیر رخشانی
حب شہر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بھوانی کا قبرستان، قدیم قبرستانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ قبروں کے آثار اور ان پر بنائے گئے نقوش اس قبرستان کے قدیم ہونے کی ضمانت دیتے ہیں۔ وہ کاریگر جو ریتیلے پتھروں سے ان قبروں کی تزئین و آرائش کرتے تھے، اب نہ وہ کاریگر رہے اور نہ ہی ریتیلے پتھروں کا استعمال۔
قبروں کی خوب صورتی اور ان پر بنائے گئے نقوش یہ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں آرٹ اور ہنر کو کس قدر اہمیت دی جاتی تھی۔ اسی قبرستان میں مختلف سائز کی قبریں ڈیزائن کی گئی ہیں۔ اور قبروں کے ڈیزائن مختلف ہونے کی وجہ سے اس بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ خواتین، مرد اور بچوں کی قبروں کے لیے مختلف نقوش استعمال میں لائے گئے ہیں۔ قبرستان کے قریب ایک سائن بورڈ لگا ہوا ہے۔ جس پر "17th Century Tombs of Baloch Tribes”درج ہے۔ یعنی سترھویں صدی کے بلوچ قبائل کی قبریں۔اس قبرستان کو بلوچ قبیلہ ’’کلمتی‘‘ سے منسوب کیا جاتا ہے۔
اس قبرستان کے قریب ایک چھوٹی بستی آباد ہے۔ بستی کے مکین اس قبرستان سے متعلق معلومات نہیں رکھتے۔ مائی بچائی بھی اسی گاؤں کی ایک بوڑھی عورت ہے۔ آواز سن کر باہر نکلیں۔ وہ کہتی ہیں جب ان کا خاندان بیلہ سے یہاں منتقل ہوا تو اس نے بچپن سے اب تک اسی قبرستان کے آس پاس زندگی گزاری ہے۔ البتہ وہ اپنے بچوں کو یہ ضرور سمجھاتی ہیں کہ شام کو قبرستان کے اندر نہیں جانا، بھوت اور جنات کا اثر پڑ سکتا ہے۔
قبرستان میں قدیم قبروں کی تعداد 114 ہے۔ جب کہ دو اجتماعی قبریں ہیں۔ یہ قبرستان اینٹی کوٹی ایکٹ 1975 کے تحت پروٹیکٹڈ سائیٹ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم حکومتی عملداری کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ نہ ہی قبرستان کے لیے محافظ کا بندو بست ہے اور نہ کوئی چاردیواری تعمیر کی گئی ہے۔
حب شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور مْردوں کو دفنانے کے لیے کم پڑتی ہوئی زمین، مقامی انتظامیہ کی لاتعلقی، اب یہی قدیم قبرستان نئی قبروں سے پُر ہو رہا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق قبرستان میں مردوں کا دفنانے کا سلسلہ 2008 سے شروع ہوا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ قدیم قبروں سے دوگنا زیادہ نئی قبریں تعمیر کی گئی ہیں۔
پشاور کے علاقے مردان سے تعلق رکھنے والے بلال احمد اپنی والدہ کے لیے فاتحہ پڑھنے روز اس قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے بقول ماربل سٹی سے نزدیک ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنی والدہ کو یہیں پر دفنایا۔ اور اس کے لیے انہیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد آرکیالوجی کا محکمہ وفاق سے صوبے کے پاس آ چکا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے 2014 میں ایک ایکٹ پاس تو ہوا مگر اس ایکٹ پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا ہے۔ نظامت آثار قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل بلوچ نے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد اس سائیٹ کا وزٹ کیا۔ انہوں نے حکومت بلوچستان کو اس سائیٹ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک پرپوزل جون 2014 کو ارسال کیا۔ تاہم تین سال گزر جانے کے باوجود نہ اس پرپوزل پر عمل ہوا اور نہ ہی کوئی اقدام اٹھایا گیا۔ معاملات جوں کے توں ہیں۔
قبرستان کی نگہداشت نہ ہونے سے زیادہ تر قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ قبرستان کو اس حال میں پہنچانے میں قدرت کا کم زمینی انسانوں کا عمل دخل زیادہ لگتا ہے۔ اور ان میں سب اہم مسئلہ یہ سامنے آتا ہے کہ لوگوں میں آثارِقدیمہ کے حوالے سے شعور و آگاہی کی کمی ہے۔ شعور آگاہی پھیلا نے کے لیے نہ حکومتی سطح پر آثار قدیمہ کے مضمون کو سلیبس کا حصہ بنایا گیا ہے اور نہ شعوری سیشن منعقد کیے جا چکے ہیں۔
بڑا باغ بیلہ، دریجی اور ہنگول نیشنل پارک میں واقع اسی طرز کے قدیم قبرستان واقع ہیں۔ لیکن ان قبرستانوں کی صورت حال بھوانی کے قبرستانوں سے مختلف نہیں۔
حب شہر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بھوانی کا قبرستان، قدیم قبرستانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ قبروں کے آثار اور ان پر بنائے گئے نقوش اس قبرستان کے قدیم ہونے کی ضمانت دیتے ہیں۔ وہ کاریگر جو ریتیلے پتھروں سے ان قبروں کی تزئین و آرائش کرتے تھے، اب نہ وہ کاریگر رہے اور نہ ہی ریتیلے پتھروں کا استعمال۔
قبروں کی خوب صورتی اور ان پر بنائے گئے نقوش یہ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں آرٹ اور ہنر کو کس قدر اہمیت دی جاتی تھی۔ اسی قبرستان میں مختلف سائز کی قبریں ڈیزائن کی گئی ہیں۔ اور قبروں کے ڈیزائن مختلف ہونے کی وجہ سے اس بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ خواتین، مرد اور بچوں کی قبروں کے لیے مختلف نقوش استعمال میں لائے گئے ہیں۔ قبرستان کے قریب ایک سائن بورڈ لگا ہوا ہے۔ جس پر "17th Century Tombs of Baloch Tribes”درج ہے۔ یعنی سترھویں صدی کے بلوچ قبائل کی قبریں۔اس قبرستان کو بلوچ قبیلہ ’’کلمتی‘‘ سے منسوب کیا جاتا ہے۔
اس قبرستان کے قریب ایک چھوٹی بستی آباد ہے۔ بستی کے مکین اس قبرستان سے متعلق معلومات نہیں رکھتے۔ مائی بچائی بھی اسی گاؤں کی ایک بوڑھی عورت ہے۔ آواز سن کر باہر نکلیں۔ وہ کہتی ہیں جب ان کا خاندان بیلہ سے یہاں منتقل ہوا تو اس نے بچپن سے اب تک اسی قبرستان کے آس پاس زندگی گزاری ہے۔ البتہ وہ اپنے بچوں کو یہ ضرور سمجھاتی ہیں کہ شام کو قبرستان کے اندر نہیں جانا، بھوت اور جنات کا اثر پڑ سکتا ہے۔
قبرستان میں قدیم قبروں کی تعداد 114 ہے۔ جب کہ دو اجتماعی قبریں ہیں۔ یہ قبرستان اینٹی کوٹی ایکٹ 1975 کے تحت پروٹیکٹڈ سائیٹ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم حکومتی عملداری کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ نہ ہی قبرستان کے لیے محافظ کا بندو بست ہے اور نہ کوئی چاردیواری تعمیر کی گئی ہے۔
حب شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور مْردوں کو دفنانے کے لیے کم پڑتی ہوئی زمین، مقامی انتظامیہ کی لاتعلقی، اب یہی قدیم قبرستان نئی قبروں سے پُر ہو رہا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق قبرستان میں مردوں کا دفنانے کا سلسلہ 2008 سے شروع ہوا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ قدیم قبروں سے دوگنا زیادہ نئی قبریں تعمیر کی گئی ہیں۔
پشاور کے علاقے مردان سے تعلق رکھنے والے بلال احمد اپنی والدہ کے لیے فاتحہ پڑھنے روز اس قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے بقول ماربل سٹی سے نزدیک ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنی والدہ کو یہیں پر دفنایا۔ اور اس کے لیے انہیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد آرکیالوجی کا محکمہ وفاق سے صوبے کے پاس آ چکا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے 2014 میں ایک ایکٹ پاس تو ہوا مگر اس ایکٹ پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا ہے۔ نظامت آثار قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل بلوچ نے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد اس سائیٹ کا وزٹ کیا۔ انہوں نے حکومت بلوچستان کو اس سائیٹ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک پرپوزل جون 2014 کو ارسال کیا۔ تاہم تین سال گزر جانے کے باوجود نہ اس پرپوزل پر عمل ہوا اور نہ ہی کوئی اقدام اٹھایا گیا۔ معاملات جوں کے توں ہیں۔
قبرستان کی نگہداشت نہ ہونے سے زیادہ تر قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ قبرستان کو اس حال میں پہنچانے میں قدرت کا کم زمینی انسانوں کا عمل دخل زیادہ لگتا ہے۔ اور ان میں سب اہم مسئلہ یہ سامنے آتا ہے کہ لوگوں میں آثارِقدیمہ کے حوالے سے شعور و آگاہی کی کمی ہے۔ شعور آگاہی پھیلا نے کے لیے نہ حکومتی سطح پر آثار قدیمہ کے مضمون کو سلیبس کا حصہ بنایا گیا ہے اور نہ شعوری سیشن منعقد کیے جا چکے ہیں۔
بڑا باغ بیلہ، دریجی اور ہنگول نیشنل پارک میں واقع اسی طرز کے قدیم قبرستان واقع ہیں۔ لیکن ان قبرستانوں کی صورت حال بھوانی کے قبرستانوں سے مختلف نہیں۔
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
Tue Oct 22, 2019 6:04 pm by Baloch
» Mubarik Qazi - Allah e Shukren Kay Angat Man Salamata
Sat Nov 11, 2017 7:02 pm by Baloch
» JAN MANI JANANI NADAR TAHI GAPPANI | RUSTOM LASHARI |BALOCHI SONG
Fri Nov 03, 2017 7:29 am by Baloch
» Balochi Instrumental Music | Abdul Rehman Baloch Sorozi
Fri Nov 03, 2017 7:26 am by Baloch
» Mullah Ababegar - Dad Shah Poetry
Sat Jun 10, 2017 7:59 pm by Baloch
» Hayatan O Dilawar
Sat Jun 10, 2017 5:01 pm by Baloch
» Malik Dinarzai Mirwari ملک دینارزئی میرواڑی
Mon Jun 05, 2017 1:36 pm by Baloch
» بھوانی کا قدیم بلوچ قبائلی قبرستان
Sat Jun 03, 2017 5:44 am by Baloch
» کسہ ناسرجم اَنت
Sat Jun 03, 2017 5:12 am by Baloch
» استاد ! بیا پدا واب ءَ معنا بدئے
Sat Jun 03, 2017 4:58 am by Baloch
» Balochi Islamic (Ijaz al quran ) part I
Wed May 31, 2017 7:03 am by Baloch
» Balochi Poetry video
Tue May 30, 2017 7:03 pm by Baloch